عاشورہ کے دن روزہ رکھنا سنت محمدی (ص) یا بدعت اموی؟
پہلا پہلو ،
صحیح بخاری کی دو احادیث کی روشنی میں.
پہلی ، جس میں عاشورہ کا روزہ رکھنا خوشی کا اظھارہے اور جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عاشورا کا روزہ سنت یہود جسکو سنت نبوی ہونے کے بعد اپنایا گیا ہے.
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - قَالَ قَدِمَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - الْمَدِینَةَ. فَرَأَى الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ «مَا هَذَا». قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِى إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْکُمْ». فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ.
(صحیح بخاری، ج 2، ص 251، شماره حدیث 2004)
نبی اکرم صلى الله علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے اور انھوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ہوا ہے، حضرت نے فرمایا: یہ روزہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے جواب دیا:
یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
کچھ ایسا ہی مولانا ثاقب نے بھی بیان کیا ہے (
) جس میں وہ کہتے ہیں کہ عاشورا کا روزہ یہودیوں سے لیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ کی قبطیوں سے نجات کی خوشی میں رکھا جاتا تھا، اور چونکے مسلمانوں کے لئے حضرت موسیٰ (ع) کی نجات کی زیادہ اہمیت تھی تو انکی خوشی بھی زیادہ ہی ہوگی تو پتا لگا کہ دس محرّم/ عاشورا کا روزہ مسلمانوں کے لئے بھی خوشی کا اظھار ہے.
لیکن ایک اور جگہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ.
(صحیح البخاری، ج 2، ص 250، ح 2002، کتاب الصوم، ب 69. باب صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ.)
زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول الله (ص) بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور جب رسول الله (ص) مدینہ آئے تو بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور وہ دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہو گیا کہ اسکے بعد رسول الله (ص) نے عاشورا کے دن روزہ رکھنا ترک کر دیا اور حکم دیا کہ جس کا دل چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا دل نہ چاہے وہ اس دن روزہ نہ رکھے۔
اب ، مندرجہ بالا روایت جس میں جناب عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ قریش تو پہلے ہی سے عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے لیکن رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول الله (ص) نے عاشورا کا روزہ ترک فرما دیا. یعنی رسول الله (ص) عاشورا کے دن روزہ رکھنے کی تاکید بھی کرتے تھے ، حالانکہ وہ خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔ تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول الله (ص) دوسروں کو تو ایک کام کرنے کہیں لیکن خود وہ اس عمل کو ترک کر دیں ؟ دوسرا یہ کہ زمانہ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھا جاتا تھا اور پیغمبر نے بھی عصر جاہلیت کی پیروی کرتے ہوئے عاشورا کو روزہ رکھتے تھے؟ مزید یہ کہ پہلی روایت (جسکا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے) کہتی ہے کہ رسول الله (ص) نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ صرف یہ کہ رسول الله (ص) اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس دن روزہ رکھنے کا انکو علم تک نہ تھا اور جب یہودیوں کو دیکھا کہ انھوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا ہے تو تعجب سے ان سے سوال کیا تو جواب سنا کہ ہم حضرت موسی کو نجات ملنے کی خوشی میں آج کے دن روزہ رکھتے ہیں ؟
دوسرا پہلو،
مندرجہ بالا روایات کی روشنی میں جس میں عاشورا کا روزہ یہودیوں سے لیا گیا ہے،
یہ بات تعجب خیز ہے کہ یہودی عبرانی کلینڈر کو چھوڑ کر اسلامی کیلنڈر کے حساب سے اپنے تہوار مناتے تھے جب کہ انکے کیلنڈر کی بنیاد نہ توصرف قمری ہے اور نہ ہی صرف شمسی بلکے اسکی بنیاد قمری و شمسی کیلنڈر (lunisolar calendar) ہے جس میں ساتواں مہینہ "تشري" ہے اور اس مہینے کی دسویں تاریخ کو یوم کپور منایا جاتا ہے جس دن یہودی روزہ رکھتے ہیں اور یہ وہ واحد روزہ ہے جسکا ذکر تورات میں آیا ہے. مزید پتا چلا کہ یہ عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہے اور ایک لمبا روزہ ہوتا ہے جو یوم کِپور کی شام سورج ڈوبنے پر شروع ہوتا ہے اور اگلے دن سورج غروب پر کھولا جاتا ہےـ اس تہوار کا مقصد سال بھر کی توبہ کرنا ہوتا ہےـ
اب یہاں پر دسویں تاریخ کو چھوڑ کر نہ تو مہینے کا نام ایک ہے اور نہ ہی ترتیب.
یعنی "محرّم" جو اسلامی مہینوں میں پہلا ہے جسکا نام "تشري" جو کہ عبرانی کیلنڈر میں ساتواں مہینہ ہے سے کوئی مماثلت نہیں تو پھر یوم عاشورا (اسلامی ) اور یوم کپور (عبرانی) میں کیسی مماثلت؟
حضرت امام علی رضا بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
"عاشورا کا دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے بلکہ غم و مصیبت کا دن ہے، ایسی مصیبت جو اہل آسمان، زمین اور تمام مومنین پر پڑی۔ یہ دن مرجانہ کے بیٹے، آل زیاد اور اہل جہنم کے نزدیک خوشی کا دن ہے۔"
لہذا عاشورا مصیبت اور غم کا دن ہے، عید کا دن نہیں کہ روزہ رکھنا مستحب ہو، جبکہ اس کے برخلاف بنی امیہ اس دن عید منا کر روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزے کی تشویق کرتے تھے۔
اہل سنت کے ایک با بصیرت عالم مناوی نے روز عاشورا کے بارے میں کہا ہے کہ:
ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاه فیه والانفاق والخضاب والادهان والاکتحال، بدعه ابتدعها قتله الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامه لبغض اهل البیت، وجب ترکه.
جو کچھ عاشورا کے دن کے روزے کی فضیلت، نماز، انفاق، خضاب کرنے، بالوں میں تیل لگانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب بدعت ہے کہ جسکو امام حسین کے قاتلوں نے ذکر کیا ہے اور یہی باتیں انکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی بھی علامت ہے کہ ان سب بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ضعیف روایات کو بنی امیہ نے جعلی طور پر گھڑا ہے اور خاص طور پر نویں اور دس محرم کا روزہ کی بدعت جاری کی ، کیونکہ یہی منحوس خاندان ہے جو واقعہ عاشورا کو وجود میں لانے والا ہے ، لہذا اس نے غلط روایات کے ذریعے سے ناکام کوشیشں کیں ہیں کہ شاید کسی طریقے سے امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کو کم رنگ کیا جا سکے اور انسانیت کے اذہان کو اس درد ناک دن میں دوسری چیزوں کی طرف توجہ دلائی جائے تا کہ کوئی واقعہ کربلا کا ذکر نہ کرے اور نتیجے کے طور پر بنی امیہ اور خاص طور پریزید لعین کے دامنوں پر بھی شہادت امام حسین (ع) کا کوئی دھبہ نہ لگ سکے.
لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود کو اہل سنت کہنے والوں نے کتنے آرام سے اپنی کتب میں لکھ دیا ہے کہ رسول الله (ص) نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا یہودیوں سے سیکھا تھا۔
آل امیہ، آل زیاد، آل مروان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ذکر حسین علیہ السلام کے چراغ کو جو لوگوں کے دلوں میں درد، تڑپ اور تزکیہ نفس کے ذریعہ نُور الٰہی کو دلوں میں روشن کرتا ہے کو کسی طرح بُجھا دیا جائے لیکن سورۃ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے :
يُرِيدُونَ أَن يُطۡفِـُٔواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفۡوَٲهِهِمۡ وَيَأۡبَى ٱللَّهُ إِلَّآ أَن يُتِمَّ نُورَهُ ۥ وَلَوۡ ڪَرِهَ ٱلۡكَـٰفِرُونَ (٣٢)
یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور الله اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں۔ اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے.