Pakistani Politics

in #money7 years ago

اشرف ملکھم نامی صحافی نے ایک نیوز بریک کی کہ دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ نے ایف آئی اے اور ایف بی آر کو 35 ہزار پاکستانیوں کی ایک لسٹ فراہم کی ہے جن کے پاس دبئی میں 700 ارب روپے سے زائد کی پراپرٹی ہے۔

اس لسٹ میں سیاستدانوں، ریٹائرڈ جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں سے لے کر تمام طبقات کے لوگوں کے نام شامل تھے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا نام بھی اسی لسٹ میں موجود تھا۔

اس خبر کی بنیاد پر تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں بہت شور مچایا۔ معاملہ فنانس کی سٹینڈنگ کمیٹی تک پہنچ گیا جس میں تحریک انصاف کا اسد عمر بھی شامل تھا۔

اسد عمر نے معاملے کو زندہ رکھا اور ہر دفعہ سٹینڈنگ کمیٹی کے ایجنڈے پر اس ایشو کو ڈالتا گیا۔ اسد عمر کا مطالبہ تھا کہ یہ نیوزبریک کرنے والے صحافی اشرف ملکھم کو کمیٹی کے سامنے بلا کر تصدیق کی جائے جس پر ن لیگ کے اراکین اسمبلی نے مخالفت کی لیکن اسد عمر کی مسلسل کوششوں سے ایک صحافی کی پہلی دفعہ کمیٹی کے روبرو حاضری ہوگئی۔

اس صحافی نے دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھیجی گئی مکمل لسٹ کمیٹی ممبران کے ساتھ شئیر کردی جس سے اس کمیٹی میں موجود ایف آئی اے اور ایف بی آر کے نمائیندگان کے چہروں پر کبھی ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ چنانچہ اسد عمر نے مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ نیب کے سپرد کرکے تحقیقات شروع کروائی جائیں۔ کمیٹی کے دوسرے اراکین بھی مان گئے لیکن ن لیگ کے فنانس کے وزیرمملکت رانا افضل نے یہ شرط عائد کردی کہ صحافی پہلے اپنا سورس بتائے، پھر بات آگے بڑھے گی۔

ن لیگ کا منسٹر چاہتا تھا کہ اس " کالی بھیڑ " کو پکڑا جائے جس کی وجہ سے یہ حساس معاملہ باہر نکلا تاکہ مستقبل کی پیش بندی کی جاسکے۔ صحافی نے اپنا سورس نہیں بتایا اور ن لیگ نے یہ معاملے نیب کو نہیں بھجوایا۔

اس لسٹ میں اسحاق ڈار سے لے کر نوازشریف کے بیٹوں تک، میرشکیل الرحمان سے لے کر جنگ اور جیو گروپ کے 15 کے قریب سینئر صحافی و اینکرز کے نام بھی تھے اور یہی وجہ تھی کہ ن لیگ اس معاملے کو دبانا چاہتی تھی، ورنہ اگر بات علیمہ خان کی ہوتی تو وہ ایک کی بجائے دس مقدمات قائم کرچکے ہوتے۔

اب آجائیں علیمہ خان کی پراپرٹی پر۔

دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی لسٹ کے مطابق علیمہ خان نے 2008 میں دی لافٹس کمپلیکس میں دو بیڈروم کا ایک اپارٹمنٹ خریدا تھا جو علیمہ خان کے بیان کے مطابق 2016 میں بیچ بھی دیا گیا۔

اگر آپ کو یاد ہو تو 2008 میں حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا معاشی بحران آیا تھا جس کی وجہ سے دبئی کی پراپرٹی کی قیمتوں میں 70 سے لے کر 200 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ آپ انٹرنیٹ پر جا کر دی لافٹس میں 2 بیڈروم کے فلیٹ کی 2008 میں قیمت چیک کریں، یہ تقریباً 7 لاکھ درہم پر گر چکی تھی۔ درہم اس وقت 22 روپے کا ہوا کرتا تھا، اس حساب سے یہ ڈیڑھ کروڑ روپے سے تھوڑا زیادہ بنتا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ 2008 میں لاہور ڈیفنس فیز 5 میں ایک کنال کا پلاٹ دو کروڑ کی رینج میں ہوا کرتا تھا، یعنی دبئی کا یہ فلیٹ لاہور کے ایک کنال سے بھی سستا دستیاب تھا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ علیمہ خان کے پاس یہ ڈیڑھ کروڑ روپے کہاں سے آئے؟

جواب جاننے کیلئے زیادہ دور مت جائیں، آپ چاہیں عمران خان کی ویلتھ سٹیٹمنٹ اٹھا کر دیکھ لیں یا ایف بی آر سے علیمہ خان کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کی کاپی نکلوا لیں۔ ان کے پاس آبائی زرعی زمینیں بھی ہیں اور اس کے علاوہ رہائشی و کمرشل پراپرٹی بھی۔ علیمہ خان کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے کا انتظام کرنا کوئی حیران کن بات نہیں، اگر وہ اپنی زرعی زمین کے پٹے سے حاصل ہونے والی انکم ایک سال کیلئے جمع کرلے تو وہ شاید ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ بنے۔

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ن لیگ عمران خان اور اس کی بہن کو بدنام کرنے کیلئے چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ضائع نہیں کرنے والی۔ اگر وہ 2015 سے دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ دبائے بیٹھی ہے اور کوئی کاروائی نہیں کی تو اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ علیمہ خان کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔

اس کے علاوہ علیمہ خان کوئی عوامی عہدہ بھی نہیں رکھتی کہ اس پر اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہوتا۔

یہ ہیں وہ حقائق کہ جن کی بنا پر آج تک علیمہ خان کے نام پر پٹواریوں نے صرف پراپیگنڈہ ہی کیا، کبھی کوئی کاروائی کرنے کی جرات نہیں کرسکے۔ جس نوازشریف نے 1997 میں بے ضرر عمران خان کی بیوی جمائمہ پر ٹائل سمگلنگ کا بھونڈا مقدمہ بنوا دیا، وہ نوازشریف 2015 میں اپنے خطرناک ترین حریف عمران خان کی بہن کے خلاف کاروائی نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس علیمہ خان کے خلاف کاروائی کا کوئی جواز موجود نہیں۔

یہ ہے اصل حقیقت کہ جس کی وضاحت کرنے کی عمران خان نے کبھی زحمت گوارا نہ کی، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا دامن صاف ہے، لیکن چونکہ پٹواری، جموعتی اور ڈیزلی بے غیرت ترین لوگ ہیں، اس لئے ان کی تسلی کیلئے ضروری تھا کہ وضاحت کردی جاتی ۔ ۔ ۔ ۔ جو کہ میں نے کردی!!!