یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی قوم کو صرف روٹی، کپڑا، مکان دینا کافی نہیں

ایک مائی نے بھٹو صاحب کو کہا کے میرا ایک بیٹا آپ کے پوسٹر لگاتا رہتا ہے اور دوسرا آپ کےنعرے
آپ نے آج تک ہمیں کیا دیا ؟؟؟
بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو وہ شعور دیا جو آج ایک مائی وزیرعظم سے پوچھ رہی ہے کہ آپ نے ہمیں کیا دیا...
یہ واقعہ صرف ایک سوال و جواب نہیں، بلکہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا لمحہ ہے جو آج بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک سادہ سی مائی، جو شاید زندگی کی تلخیوں سے تھکی ہوئی ہو، اپنے دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ دیتی ہے: "میرے بیٹے تیرے نعرے لگاتے ہیں، تیرے پوسٹر لگاتے ہیں، پر تُو نے ہمیں دیا کیا ہے؟"۔ اور بھٹو صاحب کا جواب—جو بظاہر صرف ایک جملہ ہے—دراصل ایک پورا فلسفہ، ایک نظریہ، اور ایک سوچ کی علامت ہے۔
جب بھٹو نے کہا: "میں نے تمہیں شعور دیا ہے"، تو وہ صرف سیاست کی بات نہیں کر رہے تھے۔ وہ اُس تبدیلی کی بات کر رہے تھے جو ذہنوں میں آہستہ آہستہ پنپتی ہے۔ کسی دور میں ایک عام دیہاتی عورت وزیرِاعظم سے سوال کرنے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ حکمرانوں کو دیوتا سمجھا جاتا تھا، اُن سے سوال کرنا گستاخی تصور کیا جاتا تھا۔ مگر یہ مائی، جو نہ بڑی تعلیم یافتہ تھی، نہ کسی پالیسی ساز ادارے کی رکن، وہ سامنے آ کر سوال کر رہی ہے — یہی ہے شعور۔
بھٹو کا اصل تحفہ یہی تھا کہ اُس نے لوگوں کو اپنی آواز کا احساس دلایا۔ اُس نے کسان، مزدور، عورت، طالبعلم، سب کو یہ یقین دیا کہ ان کی رائے بھی اہم ہے، اور ان کا سوال کرنا ان کا حق ہے۔ یہی شعور کسی قوم کی بیداری کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ جب ایک مائی یہ پوچھنے لگے کہ "ہمیں کیا ملا؟" تو سمجھ لیں کہ وہ اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھ چکی ہے۔
یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی قوم کو صرف روٹی، کپڑا، مکان دینا کافی نہیں — اگر وہ اپنی حالت پر سوال نہیں اٹھا سکتی، تو وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی قیدی رہتی ہے۔ اور اگر ایک بار سوال اٹھانا سیکھ لیا جائے، تو وہ قید کے دروازے خود ہی ٹوٹنے لگتے ہیں۔
یہ کہانی آج بھی اُتنی ہی سچ ہے جتنی اُس وقت تھی۔ آج بھی اگر کوئی نوجوان، کوئی عورت، یا کوئی کسان اپنے لیڈر سے سوال کرتا ہے کہ "آپ نے ہمیں کیا دیا؟"، تو سمجھ لیجیے کہ قوم زندہ ہے۔ اور اگر سوال کرنے کی ہمت ہی ختم ہو جائے، تو پھر وہی پرانا اندھیرا، وہی خاموش غلامی، اور وہی اندھی عقیدت ہمیں دوبارہ نگلنے آ جاتی ہے۔
بھٹو کا وہ ایک جملہ، ایک پوری نسل کی بیداری کی دلیل ہے۔ اور وہ مائی — وہ ہمارے اندر کا وہ سوال ہے جو ہر وقت ہم سے پوچھتا ہے: "کیا ہم اب بھی صرف نعرے لگا رہے ہیں، یا سچ میں کچھ مانگنے، کچھ سمجھنے، اور کچھ بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں؟"