اپنا کان مت کاٹنا
اپنا کان مت کاٹنا
اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ درست ہیں، تو محض دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی راہ مت بدلیے۔ غلط ہمیشہ غلط ہی رہے گا، چاہے لوگ اس پر متفق ہی کیوں نہ ہوں۔
لہٰذا، لوگوں کا کسی چیز پر متفق ہونا اسے جائز نہیں بنا دیتا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کی بیوی کو اولاد نہیں ہو رہی تھی، تو بادشاہ نے سلطنت کے تمام طبیبوں کو بلایا تاکہ اس کا علاج کیا جائے۔ اللہ کی مشیّت سے وہ صحت یاب ہوگئی اور حاملہ ہو گئی۔ دن گزرتے گئے اور بادشاہ اپنے وارث کی آمد کی تیاری کرنے لگا، یہاں تک کہ ملکہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔
لیکن بدقسمتی سے، بادشاہ اور ملکہ کی خوشی ادھوری رہ گئی، کیونکہ شہزادہ ایک ہی کان کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ بادشاہ کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا اور وہ خوفزدہ تھا کہ جب شہزادہ بڑا ہوگا اور خود کو دوسروں سے مختلف پائے گا تو کہیں اس کے دل میں احساسِ کمتری نہ پیدا ہو جائے، جو اس کی بادشاہت میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔
چنانچہ بادشاہ نے اپنی سلطنت کے تمام مشیروں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔
ایک مشیر نے کہا: “یہ تو بہت آسان ہے، حضور! ہر پیدا ہونے والے بچے کا ایک کان کاٹ دیا جائے، تاکہ سب کے سب شہزادے جیسے دکھائی دیں۔”
بادشاہ کو اپنے عقل مند مشیر کی تجویز بہت پسند آئی، اور اس نے حکم دیا کہ ہر نومولود کا ایک کان کاٹ دیا جائے۔ اس دن کے بعد سے، ملک میں یہی رواج بن گیا کہ ہر بچہ ایک ہی کان کے ساتھ پروان چڑھنے لگا۔
سالوں بعد، ایک دن ایک نوجوان اس ملک میں آیا، جو عام انسانوں کی طرح دونوں کانوں والا تھا۔ جب لوگوں نے اسے دیکھا تو حیران ہو گئے اور اس کی شکل کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ اسے “دو کانوں والا” کہہ کر چھیڑتے، جیسے کہ یہ کوئی عیب ہو۔
لوگ مسلسل اس کا مذاق اڑاتے رہے، یہاں تک کہ وہ اس مذاق سے تنگ آ گیا اور ان کے ساتھ گھلنے ملنے کے لیے اس نے خود اپنا ایک کان کاٹ دیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی اصل تخلیق درست ہے اور یہ لوگ اپنی غلط روش کی وجہ سے خود کو بگاڑ چکے ہیں۔ لیکن وہ لوگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکے کہ سوچیں کہ آخر ان کے کان کیوں کاٹے گئے، جبکہ اللہ نے انہیں ایک مقصد کے تحت پیدا کیا تھا۔
نتیجہ:
حضرت ابراہیمؑ کی قوم شرک میں مبتلا تھی، اور حضرت شعیبؑ کی قوم سود میں۔
غلط ہمیشہ غلط ہی رہے گا، چاہے لوگ اسے کتنا ہی اپنائیں، اور صحیح ہمیشہ صحیح ہی رہے گا، چاہے کوئی اسے نہ اپنائے۔
ایک اصول ہے: “لوگوں کا کسی چیز پر متفق ہونا اسے جائز نہیں بنا دیتا۔”
اگر آپ کو یقین ہے کہ جو آپ کر رہے ہیں وہ درست ہے، تو کسی کے کہنے پر اس سے پیچھے نہ ہٹیں اور نہ ہی اسے بدلیں۔
اپنا کان مت کاٹنا!